نئی دہلی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد 14 افراد گرفتار - Pktasks.com Your Source for Crypto News and Job Opportunities"

Post Top Ad

نئی دہلی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپوں کے بعد 14 افراد گرفتار

islamophobia


 انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پُرتشدد جھڑپ کے بعد پولیس نے اتوار کو 14 افراد گرفتار کر لیا ہے۔

 خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سنیچر کو نئی دہلی کے علاقے جہانگیر پوری میں یہ واقعہ ایک ہندو مذہبی جلوس کے دوران پیش آیا تھا۔

 اتوار کو پولیس نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ تشدد میں ملوث دیگر افراد کی نشاندہی ہوگئی ہے اور ان کے خلاف بھی قانونی کارروائی ہوگی۔

اس جھڑپ میں پولیس کے چھ افسران سمیت متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے۔

 انڈین ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مذہبی جلوس ہنومان جینتی پر پتھراؤ کیا گیا۔

گذشتہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی فسادات کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

حالیہ ہفتوں میں وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے سخت گیر مذہبی جماعتوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ان سخت گیر مذہبی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہ ہندو عقیدے کا دفاع کرتے ہیں۔

 تاہم بھارتیہ جنتا پارٹی نے مودی کے دور حکومت میں مذہبی کشیدگی میں اضافے کی تردید کی ہے۔

 اقلیتی امور کے وزیر مختار عباس نقوی جو مودی کی حکومت کا حصہ ہیں، نے اتوار کو ایک انٹرویو میں کہا کہ مذہبی گروہوں کے درمیان برداشت کم نہیں رہی ہے جبکہ انہوں نے حالیہ صورتحال کو بھی زیادہ سنگین قرار نہیں دیا۔

اکنامک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انڈیا کی خوشحالی اور پرامن ملک ہونے کو ہضم نہ کرنے والے عناصر اب ملک کی کثیرالثقافتی شناخت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا تھا کہ حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ کیا کھائیں اور کیا نہیں۔

حال ہی میں نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی کے طلبہ کے درمیان ایک ہفتے کے لیے کینٹین میں صرف سبزی پیش کرنے پر جھگڑا ہوا تھا۔

 انہوں نے کہا کہ ’ہر شہری کو اپنی پسند کا کھانا کھانے کی آزادی ہے۔‘

تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے حوالے سے مذہبی امور کے وزیر کا کہنا تھا کہ ’انڈیا میں حجاب پر پابندی نہیں۔ خواتین مارکیٹ اور دیگر مقامات پر حجاب پہن سکتی ہیں لیکن ہر کالج اور ادارے کا اپنا ڈریس کوڈ ہوتا ہے۔‘

 


No comments:

Post a Comment

Post Top Ad